Saturday 14 January 2017

اسلام اور لبرل ازم

بڑے افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ دوست اتنے لبرل ہو گئے ہیں  کہ وہ خود کو صحیح  ثابت کرنے کے لیے اسلام کو ہی   لبرل کہہ جاتے ہیں۔  جب کہ لبرل ازم کا اسلام سے موازنہ کرنا ہی بے عقلی یے۔ لبرل ازم انسان کا  بنایا ہوا نظام ہے اور اسلام اللہ کا بنایا ہوا۔ افسوس اس بات کا ہوتا یے کہ اللہ کے نظام کو چھوڑ کر انسان کے بنائے ہوئے نظام کو اچھا سمجھا جا رہا ہے۔ اور ایسا کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو ہم اعلی تعلیم یافتہ کہتے ہیں ۔ عقل کے اندھوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جس اسلام کی بنیاد پہ پہلی مسلمانوں کی ریاست وجود میں آئی ، لبرل ازم تو اسکی مخالفت ہے کہ مزہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے ۔
میں نے پہلے کہا ہے کہ اسلام کا موازنہ لبرل ازم سے کرنا بے وقوفی ہے پھر بھی یہ بے وقوفی کیے دیتا ہوں تھوڑی سی شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے  میری بات۔
لبرل ازم  : ریاست کے قوانین  مزہب سے پاک ہونے چاہیں
اسلام: پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد مزہب پر تھی
لبرل ازم: مرد و عورت کو برابر کے حقوق حاصل ہیں
اسلام: مرد حا کم ہے عورت محکوم
لبرل ازم: انفرادی طور پر ہر شخص مکمل آزاد ہے
اسلام: انفرادی طور پر ہر شخص ایک حد میں آزاد ہے
اگر اسی طرح دیکھا جائے تو یہ فہرست بہت لمبی یو جائے گی ۔ اسلام لبرل دین ہے  یا نہیں اس بات کا اندازہ آپ صرف اس سے لگا لیں کہ اسلام میں مرتد (وہ شخص جو اسلام قبول کر کے اسلام کا انکار کر دے) کو واجب القتل قرار دیا گیا ہے
اعلی تعلیم یافتہ احباب سے گزارش ہے کہ اسلام کو لبرل کہنے سے پہلے ایک بار اسلام کے بنیادی مسائل کو دیکھ لیں۔
اسلام صرف عبادات کا نام نہں بلکہ ہر شعبہ زندگی کے لیے احکامات موجود ہیں۔ اس لیے اسلام کے ہوتے ہوئے کسی بھی دوسرے نظام کو قبول کرنا شرک کے مترادف ہے
بقول مفکر اسلام
دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارا

No comments:

Post a Comment